Home » قادیانیوں کے کفر کی وجوہات » محمد رسول اللہ ہونے کا دعویٰٰ

محمد رسول اللہ ہونے کا دعویٰٰ

مرزاقادیانی نے عام دعویٰ نبوت نہیں کیا بلکہ ثانی محمد ہونے کا دعویٰ کیا ہے، کیونکہ قادیانی عقیدہ کے مطابق محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں دوبارہ آنا مقدر تھا۔ پہلی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں محمد بن عبداللہ کی شکل میں آئے اور دوسری بار قادیان میں مرزا غلام احمد ابن غلام مرتضیٰ کی بروزی شکل میں آئے، یعنی مرزا قادیانی کی شکل میں محمد رسول اللہ کی روحانیت مع اپنے تمام کمالات نبوت کے دوبارہ جلوہ گر ہوئی ہے۔ مرزا قادیانی کے اس گھناؤنے عقیدہ پر چند عبارات ملاحظہ فرمائیں۔

؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثت ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ دنیامیں آنے کا دعدہ کیاگیاتھا، جو مسیح موعود اور مہدی (مرزا قادیانی) کے ظہور سے پورا ہوا۔

(روحانی خزائن جلد18 ص 207)
مرزا قادیانی نے اپنے اس گندے عقیدے کا اظہاریوں بھی کیا ہے لکھتاہے کہ

”اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس رسول کریم کے لطف اور وجود کو میری طرف کھینچا، یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا۔ پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا۔ وہ شخص جو مجھ میں اور مصطفی میں فرق کرتاہے اس نے مجھے نہیں دیکھا اور نہیں پہچانا۔

(خزائن ج16 ص258)
مرزا قادیانی کا لڑکا مرزا بشیر احمد ایم اے اسی عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُتارا تاکہ اپنے دعدے کو پورا کرے جو اس نے ”اخرین منھم لما یلحقو بھم“ میں فرمایا تھا۔ (کلمۃ الفصل 105) آگے لکھتاہے:

جو شخص مرزاقادیانی کی بعثت کو محمدرسول اللہ کی بعثت ثانیہ نہیں مانتا اس نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا کیوں کہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہاہے کہ محمد رسول اللہ ایک بار پھر دنیا میں آئیں گے۔

(کلمۃ الفصل 106)
اسی نظرئیے کو مرزاقادیانی کے مرید خاص قاضی اکمل نے اشعار کی صورت میں بیان کیاہے جو قادیانی اخبار میں چھپے لکھتا ہے

؎ اے میرے پیارے میری جان رسول قدنی تیرے صدقے تیرے قربان رسول قدنی
پہلی بعثت میں محمد ہے تو اب احمد ہے تجھ پہ پھر اترا قرآن رسول قدنی

(اخبار الفضل 16 اکتوبر 1922)
یہ مذکورہ عبارات ہیں مرزا قادیانی کا کفر نصف النہار کے سورج سے بھی زیادہ واضح ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو بہ پہلو:

قادیانی عقیدے کے مطابق مرزاقادیانی کو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی نہیں، بلکہ تمام کمالاتِ محمدی بھی ملے ہیں اور اس طرح سے مرزاقادیانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پلہ ہوگیا۔ قادیانی کتب سے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
مرزاقادیانی کا لڑکا لکھتا ہے:

مسیح موعود (مرزا قادیانی) کو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کرلیا۔۔۔ پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لاکھڑا کیا۔ (کلمۃ الفصل ص 112)

مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتاہے:

میں نے بفضل الہیٰ اس بات کو پایہ ثبوت تک (گزشتہ مضمون میں) پہنچایا کہ حضرت مسیح موعود باعتبار نام، کام، مقام اور آمد کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود ہیں یا یوں کہو کہ آنحضرت جیسا کہ (دنیاکے) پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے تھے ایسا ہی اِس وقت جمیع کمالات کے ساتھ مسیح موعود کی بروزی صورت میں مبعوث ہوئے ہیں۔ (کلمۃ الفصل مورخہ 28 اکتوبر 1919)

انہی کفریہ عقائد کی وجہ سے مرزاقادیانی نے قرآن مجید کی وہ آیات جن کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کے بارے میں دعویٰ کیا کہ یہ آیات میری شان میں دوبارہ نازل ہوئیں ہیں۔ بطور نمونہ کے چند آیات ملاحظہ فرمائیں۔

*. وَرَفعنا لک ذکرک (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات ص538)

*.وما ینطق عن الھوٰی ان ھو الا وحی یوحیٰ (تذکرہ طبع چہارم ص 321)

*.قل یا ایھاالناس انی رسولُ اللہ الیکم جمیعا (تذکرہ طبع چہارم ص 538)

*.وماارسلنٰک الا رحمۃاللعالمین (تذکرہ طبع چہارم ص 547)

*. انا اعطینٰک الکوثر (تذ کرہ طبع دوم ص280,281)

قادیانی ذریت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مرزا قادیانی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح درود وسلام کا مستحق ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ بھی مرزا قادیانی پر درود بھیجتاہے۔ ملاحظہ فرمائیں

صلی اللہ علیک وعلیٰ محمد (تذکرہ مجموعہ وحی والہامات مرزا ص 661)

قادیانی عقیدے کے مطابق قرآن مجید میں جو آداب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کیے گئے ہیں وہی آداب مرزا قادیانی کی تعظیم و تکریم کے لیے بجالانا ضروری ہیں۔ مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

مرزا قادیانی کے مرید خاص مولوی احسن امروہی اور مولوی عبدالکریم کا مسیح موعود کی موجودگی میں تنازع ہوا جس میں ایک دوسرے کے خلاف آوازیں بلند ہوگئیں اور پھر اتنی بلند ہوئیں کہ باہر جانے لگیں اس پر مرزا صاحب نے فرمایا ”لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی (سواہ حجرات)“ یعنی اے مؤمنوں! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز کے سامنے بلند نہ کرو“۔ اس حکم کے سنتے ہی مولوی عبدالکریم فوراً خاموش ہوگئے لیکن مولوی احسن امروہی آہستہ آہستہ بڑبڑاتے رہے۔

(سیرت المہدی ج دوم ص ۰۳)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>

*