مرزا قادیانی کا نام و نسب:
مرزا قادیانی خود اپنا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے۔
- اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں نام غلام احمد،میرے والد کا نام غلام مرتضیٰ ، دادا کا نام عطا محمد تھا۔ (خزائن ج ۲۲ ص ۱۳۷)
- اپنی قوم کے بارے میں لکھتا ہے کہ ہماری قوم مغل برلاس ہے
- اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں لکھتا ہے کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ یا ۱۸۴۰ میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور میں ۱۸۵۷ میں سولہ یا سترہ برس کا تھا (خزائن ج ۱۳ ص ۱۷۷)
پیدائش کی کیفیت:
مرزا قادیانی نے اپنی پیدائش کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے جہاں اپنی غیرت کی دھجیاں بکھیری ہیں وہاں اپنی ماں کی عصمت کی چادر کو بھی تار تار کیا ہے ملاحظہ فرمائیں میں اور میری بہن رحمت جڑواں پیدا ہوئے پہلے لڑکی پیٹ سے نکلی اور اسکے بعد میں نکلا تھا اور میرا سر اُس کے پاؤں میں پھنسا ہوا تھا۔ (خزائن ج ۱۵ ص ۴۷۹)
قارئین کرام آپ کو دنیا میں ایسا بے حیا نہ ملے گا جو نکلی ، نکلا جیسے الفاظ کے ذریعے اپنی ولادت کو بیان کرے پھر طرفہ یہ کہ بہن کی ٹانگوں میں ہو۔ اور مرزا کا یہ کہنا کہ پیٹ سے نکلی اس بات کی وضاحت کی کیا ضرورت تھی کیا پیٹ کے علاوہ بھی کسی حصے میں بچہ ہوتا ہے اور ہمارا مرزائیوں سے یہ سوال ہے کہ مرزا قادیانی کو اپنی پیدائش کی کیفیت کا علم کیسے ہوا ؟
انگریز کا وفادار خاندان
مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ تھا اور اس کا خاندان انگریز کا پٹھو تھا۔ مرزا قادیانی اپنے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے:
’’میرے والد صاحب میرا خاندان ابتداء سے سرکارِ انگریز کے بدل و جان، ہوا خواہ اور وفادار ہے اور گورنمنٹ عالیہ انگریزی کے معزز افسروں نے مان لیا ہے کہ یہ خاندان کمال درجہ پر خیرخواہ سرکارِ انگریزی ہے۔ (مجموعہ اشتہارات ج۹، ۱۰)
مرزا قادیانی کا بچپن
انبیاء کرام علیھم السلام کی جیسے جوانی پاک وصاف اور قابل اتباع ہوتی ہے ایسے ہی بچپن بھی عام بچوں سے جدا نہایت پر وقار اور ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک ہوتا ہے لیکن قادیان کے اس بناوٹی نبی کے بچپن کے حالات گلی محلے کے عام آوارہ بچوں سے بھی گئے گزرے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
بچپن کا نام
مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے مرزا قادیانی کے بچپن کا نام ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: مرزا قادیانی کا ابتدائی نام دسوندی تھا لیکن سندھی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ (سیرت المہدی حصہ اول ص ۳۶)
چڑی مار
مرزا قادیانی کو بچپن میں شکار کا بھی شوق تھا لیکن شوق پورا کرنے کا انداز کیا تھا۔مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہوشیار پور میں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔ (سیرت المہدی حصہ اول ص 36)
چھپڑ کا تیراک
مرزا قادیانی بچپن میں تیرنے کا بھی دلدادہ تھا برسات میں جب قادیان کی ساری غلاظت بارشوں میں بہہ کر قادیان کے اردگرد جمع ہوجاتی تو مرزا قادیانی اس گندے پانی میں دیر تک تیرتا رہتا چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے :
حضرت صاحب (مرزا قادیانی ) نے فرمایا کہ میں بچپن میں اتنا تیرتا تھا کہ ایک وقت میں ساری قادیان کے اردگرد تیر جاتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے اردگرد اتنا پانی جمع ہوتا ہے کہ قادیان ایک جزیرہ بن جاتا ہے۔ (سیرت المہدی حصہ اول ص ۲۷۶)
نمک اور چینی
مرزا قادیانی کی طبیعت میں شروع ہی سے چوری کا مادہ تھا اس لئے بچگانہ قسم کی چوری کی عادت بچپن میں بھی تھی مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد لکھتا ہے :
حضرت صاحب فرماتے کہ ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ میں گھر آیا اور بغیر کسی کے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی بس کیا تھا، میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ وہ بورا میٹھا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔
روٹی اور راکھ
مرزا قادیانی کے مزاج میں عام بچوں کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی بھی تھی چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے۔
ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ دیا کہ یہ لے لو ۔حضرت نے کہا یہ میں نہیں لیتا انہوں نے کوئی اورچیز بتائی تو حضرت نے پھر انکار کیا انہوں نے چڑ کر سختی سے کہا کہ جاؤ پھر راکھ سے کھا لو۔ حضرت صاحب روٹی پرراکھ ڈال کر بیٹھ گئے۔
(سیرت المہدی حصہ اول ص ۲۴۵)
قارئین کرام! عقل اور فرمانبرداری دیکھئے جب والدہ نے اپنی پسند کی چیز رضا سے دی تو ضد اور انکار لیکن ناراضگی سے راکھ بھی لے لی۔
مرزا قادیانی کے بچپن کے چند گوشے آپ کے سامنے رکھے ہیں اس کے برعکس اولیاء اﷲ کے بچپن کو دیکھ لیں ان کا بچپن بھی علم و حکمت، تقویٰ و طہارت اور خدا خوفی سے بھرا ہوتا ہے اور ان کا بچپن ان کے روشن پاکیزہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔
مرزا قادیانی کی جوانی
مشہور ہے کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے اور جوش جوانی میں اکثر لوگ بے اعتدالیاں کر گزرتے ہیں لیکن جن لوگوں کے حق میں خدا کا مامور بننا مقدر ہو اُن کی جوانی اطاعت و فرمانبرداری، عبادت و ریاضیت، اخلاق و اوصاف، امانت و دیانت ، عقل و دانش غرض جملہ اخلاقی، علمی اور عملی محاسن کا مجموعہ ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس مرزا قادیانی کی جوانی لہو و لعب، فسق و فجور اور بددیانتی سے پر تھی چنانچہ مرزا قادیانی کا جوانی میں ملازمت اختیار کرنے کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے اور بہت سے اندرونی معاملات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مرزا قادیانی کا لڑکا لکھتا ہے :” بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت صاحب (مرزا قادیانی) تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام دین بھی چلا گیا جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو بہلا پھسلا کر اور دھوکہ دے کربجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر اُدھر پھراتا رہا جب آپ نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کرد یا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا اور حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہوجائیں اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہوگئے۔( )
جب کہ مرزا قادیانی کا دوسرا لڑکا مرزا محمود سیالکوٹ ملازمت کاپس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’ اور ایسا ہوا کہ ان دنوں آپ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی اور گزارے کے لیے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کرلی۔
محترم قارئین ! مرزا قادیانی کی بیوی کے بیان کے مطابق مرزا امام دین نے مرزا قادیانی کو بہلایا پھسلایا اور پھر دھوکہ دے کر پنشن کی ساری رقم اُڑوا بھی دی انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کہ مرزا قادیانی کی جوانی پورے شباب پر تھی اور مرزا قادیانی کا دعویٰ بھی ہے کہ مجھے ماں کے پیٹ میں نبوت ملی ہے تو ایسی حالت میں امام دین جیسے ایک دیہاتی کا بہلانا پھسلانا اور دھوکہ دینا کیا معنی رکھتا ہے۔
اور پھر مرزا قادیانی کاامام دین کے ساتھ ادھر ادھر پھرتے رہنا اور سارا مال بھی ادھر ادھر کے کاموں میں اڑا کر ضائع کر دینا پھر اسی شرمندگی کی وجہ سے گھر بھی نہ آنا‘‘ یہ تمام باتیں مرزا قادیانی کی عفت و پاک دامنی اور امانت و دیانت کو خوب واضح کرتی ہیں۔ بھلا جو شخص امانت کی رقم کو ادھر ادھر کے کاموں میں اڑا دے اور جسے آوارگی کی وجہ سے والدین طعنے دیتے ہوں اس سے اس تقویٰ اور نیک بختی کی امید کی جاسکتی ہے اور کیا ایسا شخص شریف آدمی کہلانے کے قابل ہے۔
دوران ملازمت مذہبی چھیڑ چھاڑ
مرزا قادیانی کی سیالکوٹ ملازمت کا زمانہ وہ ہے جب برصغیر پاک و ہند میں انگریزی حکومت قائم تھی جو مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی جس کے نتیجے میں جگہ جگہ عیسائی پادری عیسائیت کے پرچار میں مصروف تھے اسی وجہ سے وقتاً فوقتاً بحث مباحثے ہوتے رہتے۔ مرزا قادیانی کی بھی سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران جب کچھ جان پہچان ہو گئی تو اس نے بھی مختلف مذاہب کے لوگوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی چنانچہ مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے لکھتا ہے:
سیالکوٹ ملازمت کے دوران کبھی کبھی نصر اﷲ نامی مشن سکول کے عیسائی ہیڈ ماسٹر سے مرزا صاحب کی مذہبی بحث ہو جاتی تھی۔ (سیرت المہدی حصہ اول ص 256)
لیکن مرزا قادیانی کو اکثر اس طرح کی گفتگو میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہی وہ زمانہ ہے جب مرزا قادیانی کی بعض یورپین مشنریوں اور عیسائی افسروں سے ملاقات ہوئی انہوں نے مرزا قادیانی کی دجالی صفات کو دیکھتے ہوئے اسے حکومت برطانیہ کا منظور نظر بننے کی پیش کش کی۔ سیرت مسیح موعود کے صفحہ 15پر برطانوی انٹیلی جنس سیالکوٹ مشن کے انچارج مسٹر ریوزنڈ مابٹلر سے مرزا کی ملاقات کا تذکرہ موجود ہے ۔۔۔.